ہفتہ، 12 اکتوبر، 2013

ایک نئی غزل ۔ڈاکٹر فریاد آزرؔ

تمام عمر ہوا   کے     د باؤ    میں رہنا


بہت کٹھن    تھا مسلسل تناؤ   میں رہانا


عجیب شرط تھی تن کر کھڑے نہ ہونے کی

جہاں کے سامنے    پیہم جھکاؤ    میں  رہنا

میں وہ پہاڑ تھرکتی ہیں ندّیاں جس پر

مرا نصیب  ہے ہر دم کٹاؤ میں رہنا

ہوا نہ مجھ سے کبھی دشمنوں پہ بھی حملہ

ہے جنگ لڑنے کا مقصد بچاؤ میں رہنا

نکلنا قید سے باہر تو صرف خوابوں میں

پھر اس کے بعد غموں کے الاؤ میں رہنا

نہ جانے کیسا حسد ہے کہ ختم ہوتانہیں

مرے  خلاف   زمانہ   کا داؤ میں رہانا

نہ اب لباس کی پروا نہ تن کی زیبائش

عجیب دور تھا بس رکھ رکھاؤمیں رہنا

جیو کچھ ایسے کہ ہر روز روزِ آخرہو

تمام عمر یوں ہی چل چلاؤ میں رہنا

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں