پیر، 30 ستمبر، 2013

Ghazal- Tishnagi


تشنگی ایسے لبوں کی کیا بجھا پاتا فرات
مدتوں سے خود تھا جن کی دید کا پیاسا فرات

تشنگی کو آپ اپنا امتحاں مقصود تھا
ورنہ پاکیزہ لبوں تک خود ہی آجاتا فرات

پھر وہی منظر نظر کے سامنے کیوں آگیا
کربلا، خوں ریزی، کوفہ، تشنگی، صحرا، فرات

اب بھی ہیں صحرا کی آنکھوں سے یونہی آنسو رواں
نام ان کو دے دیے ہیں وقت نے دجلہ فرات

سر پہ آکر رک گیا ہے آفتابِ مغربی
پی نہ جائے یہ کہیں اب سارے کا سارا فرات

شہروں میں اک شہر تھا بغداد کہتے تھے جسے
اور دریاؤں میں آزرؔ ایک تھا دریا فرات
۔۔۔ ۔
کتاب 
گلوبل گاؤں میں

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں